EN हिंदी
کچھ گردش زمانہ کچھ آرزو کرے ہے | شیح شیری
kuchh gardish-e-zamana kuchh aarzu kare hai

غزل

کچھ گردش زمانہ کچھ آرزو کرے ہے

مجاز جے پوری

;

کچھ گردش زمانہ کچھ آرزو کرے ہے
باقی جو بچ رہے ہے وہ کام تو کرے ہے

خون جگر کرے ہے دل کو لہو کرے ہے
یہ دور آدمی کو یوں سرخ رو کرے ہے

موتی ہے یہ پلک پر رخسار پر ہے شبنم
گر کر زمیں پہ آنسو بے آبرو کرے ہے

زنداں کی دل شکستہ تنہائیوں میں کوئی
دیوار و در سے جانے کیا گفتگو کرے ہے

ہر ذرہ میکدہ ہے یہ تشنگی سلامت
کیوں ماتم شکست جام و سبو کرے ہے

کچھ معتبر نہیں ہے اسود ہو یا کہ مرمر
ان پتھروں کے آگے کیا آرزو کرے ہے

کب کا گزر چکا ہے دیوانگی کا عالم
پھر بھی مجازؔ اپنا دامن رفو کرے ہے