EN हिंदी
کچھ فاصلہ نہیں ہے عدو اور شکست میں | شیح شیری
kuchh fasla nahin hai adu aur shikast mein

غزل

کچھ فاصلہ نہیں ہے عدو اور شکست میں

اکرم نقاش

;

کچھ فاصلہ نہیں ہے عدو اور شکست میں
لیکن کوئی سراغ نہیں ہے گرفت میں

کچھ دخل اختیار کو ہو بود و ہست میں
سر کر لوں یہ جہان الم ایک جست میں

اب وادئ بدن میں کوئی بولتا نہیں
سنتا ہوں آپ اپنی صدا بازگشت میں

رخ ہے مرے سفر کا الگ تیری سمت اور
اک سوئے مرغ زار چلے ایک دشت میں

کس شاہ کا گزر ہے کہ مفلوج جسم و جاں
جی جان سے جٹے ہوئے ہیں بند و بست میں

یہ پوچھ آ کے کون نصیبوں جیا ہے دل
مت دیکھ یہ کہ کون ستارہ ہے بخت میں

کس سوز کی کسک ہے نگاہوں کے آس پاس
کس خواب کی شکست امڈ آئی ہے طشت میں