کچھ اہتمام نہ تھا شام غم منانے کو
ہوا کو بھیج دیا ہے چراغ لانے کو
ہمارے خواب سلامت رہیں تمہارے ساتھ
یہ بات کافی ہے دنیا کی نیند اڑانے کو
ہمارا خون کسی کام کا نہیں بھائی
یہ پانی ٹھیک ہے لیکن دیئے جلانے کو
ہماری راکھ یونہی تو نہیں کریدتے لوگ
ہمارے پاس کوئی بات ہے چھپانے کو
ترے بغیر بھی ہم جی رہے ہیں اور خوش ہیں
یہ بات کم تو نہیں ہے تجھے جلانے کو
ہمارے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں ہاتھ اس کے
ہمارے ساتھ محبت بھی ہے زمانے کو
وہ جن کے پاس کوئی عکس بھی نہیں عامیؔ
تڑپ رہے ہیں مجھے آئینہ دکھانے کو
غزل
کچھ اہتمام نہ تھا شام غم منانے کو
عمران عامی