کچھ دنوں سے جو طبیعت مری یکسو کم ہے
دل ہے بھر پور مگر آنکھ میں آنسو کم ہے
تجھے گھیرے میں لیے رکھتے ہیں کچھ اور ہی لوگ
یعنی تیرے لیے یہ حلقۂ بازو کم ہے
توڑ جیسے ہے کوئی اپنے ہی اندر اس کا
ورنہ ایسا بھی نہیں ہے ترا جادو کم ہے
میں ان آفات سماوی پہ کروں کیوں تکیہ
کیا مری ساری تباہی کے لیے تو کم ہے
رنگ موسم ہی محبت کا دیا جس نے بگاڑ
شہر بھر کے لیے کیا ایک ہی بد خو کم ہے
پیڑ کی چھانو پہ کرتی ہے قناعت کیوں خلق
اور کیوں سب کے لیے سایۂ گیسو کم ہے
زندگی ہے وہی صد رنگ مرے چاروں طرف
کچھ دنوں سے مگر اس کا کوئی پہلو کم ہے
وہ بھی جانے سے ہوا پھرتا ہے باہر اور کچھ
دل پہ اپنا بھی کئی روز سے قابو کم ہے
شاعری چھوڑ بھی سکتا نہیں میں ورنہ ظفرؔ
جانتا ہوں اس اندھیرے میں یہ جگنو کم ہے
غزل
کچھ دنوں سے جو طبیعت مری یکسو کم ہے
ظفر اقبال