EN हिंदी
کچھ دیر تو سب کچھ ٹوٹنے کا ماحول رہا | شیح شیری
kuchh der to sab kuchh TuTne ka mahaul raha

غزل

کچھ دیر تو سب کچھ ٹوٹنے کا ماحول رہا

منموہن تلخ

;

کچھ دیر تو سب کچھ ٹوٹنے کا ماحول رہا
مت پوچھ کہ پھر اس دل پر کیسا ہول رہا

جب چاہا اس میں خود کو چھپا لیتے ہیں سب
آوازوں کا ہر ذات پہ کوئی خول رہا

یوں لگتا تھا جو بات ہے الٹی پڑتی ہے
اب کیا ہی کہیں تب ہول سا کوئی ہول رہا

اب کون کہاں آیا کہ گیا معلوم نہیں
بس قدموں کی آہٹ کا اک ماحول رہا

کہہ بھی نہ سکا میں اس میں شامل تھا کہ نہیں
بس ایک چھلاوے سا مستوں کا غول رہا

آواز فقیرانہ کشکول امیدوں کا
اب یہ تو رہی آواز وہاں کشکول رہا

ہم تلخؔ فقط اس دور کی اب کچھ یادیں ہیں
جب درد بھی تھا کہنے کا بھی ماحول رہا