کچھ دیر کالی رات کے پہلو میں لیٹ کے
لایا ہوں اپنے ہاتھوں میں جگنو سمیٹ کے
دو چار داؤں کھیل کے وہ سرد پڑ گیا
اب کیا کرو گے تاش کے پتوں کو پھیٹ کے
اس سانولے سے جسم کو دیکھا ہی تھا کہ بس
گھلنے لگے زباں پہ مزے چاکلیٹ کے
جیسے کوئی لباس نہ ہو اس کے جسم پر
یوں راستہ چلے ہے بدن کو سمیٹ کے
میں اس کے انتظار میں بیٹھا ہی رہ گیا
کپڑوں میں رکھ گیا وہ بدن کو لپیٹ کے
ہر فلسفے کو وقت نے ایسے مٹا دیا
جیسے کوئی نقوش مٹا دے سلیٹ کے
وہ ہنس رہا تھا دور کھڑا اور چند لوگ
لے جا رہے تھے اس کو کفن میں لپیٹ کے
غزل
کچھ دیر کالی رات کے پہلو میں لیٹ کے
شاہد کبیر