کچھ درجہ اور گرمئ بازار ہو بلند
دل بیچئے کہ ذوق خریدار ہو بلند
باب قبول بند ہے دست طلب پر اب
رب چاہتا ہے پائے طلب گار ہو بلند
جھک جائے گا سبو بھی کوئی جام تو اٹھائے
دانہ ہے منتظر کوئی منقار ہو بلند
دیکھی تھی جس نے پیاس وہ پانی تو بہہ چکا
امکاں نہیں کہ پرچم انکار ہو بلند
ناخون بھیڑیوں کے تو بڑھتے ہی جاتے ہیں
کوئی کماں اٹھے کوئی تلوار ہو بلند
مجھ کو بقدر تیشہ نہیں سنگ رہ گزار
ارشدؔ مرے لئے کوئی کہسار ہو بلند
غزل
کچھ درجہ اور گرمئ بازار ہو بلند
ارشد جمال حشمی