کچھ بھی سمجھ نہ پاؤ گے میرے بیان سے
دیکھا بھی ہے زمیں کو کبھی آسمان سے
ہم روشنی کی بھیک نہیں مانگتے کبھی
جگنو نکالتے ہیں اندھیروں کی کان سے
محسوس کر رہی ہے زمیں اپنے سر پہ بوجھ
مٹی کھسک کے گرنے لگی ہے چٹان سے
ہنستی ہوئی بہار کا چہرہ اتر گیا
بارود بن کے لفظ جو نکلے زبان سے
ہم کیوں بنا رہے ہیں انہیں اپنا رہنما
جو کھیلتے ہیں روز ہماری ہی جان سے
قیمت لگا رہے ہیں ہمارے لہو کی وہ
اور چاہتے ہیں اف نہ کریں ہم زبان سے
کرنا ہے اپنے غم کا ازالہ بھی خود ہمیں
بارش نہ ہوگی امن کی اب آسمان سے

غزل
کچھ بھی سمجھ نہ پاؤ گے میرے بیان سے
سنجے مصرا شوق