EN हिंदी
کچھ بھی نہیں جو یاد بتان حسیں نہیں | شیح شیری
kuchh bhi nahin jo yaad-e-butan-e-hasin nahin

غزل

کچھ بھی نہیں جو یاد بتان حسیں نہیں

افسر الہ آبادی

;

کچھ بھی نہیں جو یاد بتان حسیں نہیں
جب وہ نہیں تو دل بھی ہمارا کہیں نہیں

کس وقت خوں فشاں نہیں آنکھیں فراق میں
کس روز تر لہو سے یہاں آستیں نہیں

ایسا نہ پایا کوئی بھی اس بت کا نقش پا
جس پر کہ عاشقوں کے نشان جبیں نہیں

ہر پردہ دار وقت پر آتا نہیں ہے کام
ایک آستیں ہے آنکھوں پر اک آستیں نہیں

دونوں جہاں سے کام نہیں ہم کو عشق میں
اچھا تو ہے جو اپنا ٹھکانا کہیں نہیں

کیا ہر طرف ہے نزع میں اپنی نگاہ یاس
زانو پر اس کے سر جو دم واپسیں نہیں

دونوں میں سو طرح کے بکھیڑے ہیں عمر بھر
اے عشق مجھ کو حوصلۂ کفر و دیں نہیں

وہ مہر وش جو آیا تھا کل اور اوج تھا
آج آسماں پہ میرے مکاں کی زمیں نہیں

کیا آنکھ اٹھا کے نزع میں دیکھوں کسی کو میں
بالیں پر آپ ہی جو دم واپسیں نہیں

پیدا ہوئی ضرور کوئی ناخوشی کی بات
بے وجہ یہ حضور کی چین جبیں نہیں

خیر آ کے فاتحہ کبھی اخلاص سے پڑھے
اس بے وفا کی ذات سے یہ بھی یقیں نہیں

خلعت ملی جنوں سے عجب قطع کی مجھے
دامن ہیں چاک جیب قبا آستیں نہیں

افسرؔ جو اس جہان میں کل تک تھے حکمراں
آج ان کا بہر نام بھی تاج و نگیں نہیں