EN हिंदी
کچھ بھی نہ اس کی زینت و زیبائی سے ہوا | شیح شیری
kuchh bhi na uski zinat-o-zebai se hua

غزل

کچھ بھی نہ اس کی زینت و زیبائی سے ہوا

ظفر اقبال

;

کچھ بھی نہ اس کی زینت و زیبائی سے ہوا
جتنا فساد ہے مری یکتائی سے ہوا

لگتا ہے اتنا وقت مرے ڈوبنے میں کیوں
اندازہ مجھ کو خواب کی گہرائی سے ہوا

لازم تھا جست بھرنے کی خاطر یہ کام بھی
واقف میں اپنے آپ کا پسپائی سے ہوا

کافی تھا یوں تو رنگ تماشا بذات خود
جو بچ رہا وہ کام تماشائی سے ہوا

ہوں کس قدر کسی کے شمار و قطار میں
ظاہر وہاں پہ اپنی پذیرائی سے ہوا

کمزوریاں ہماری ہوئیں وا شگاف جب
اپنا بھی حشر پوری توانائی سے ہوا

جو اصل چیز تھی وہ چھپی رہ گئی کہیں
کچھ فائدہ نہ حاشیہ آرائی سے ہوا

کھلنا تھا اپنے عیب و ہنر کا بھرم کہاں
یہ بھی ہوا تو قافیہ پیمائی سے ہوا

ہنگامہ گرم ہے جو مرے چار سو ظفرؔ
سو بھی ہجوم سے نہیں تنہائی سے ہوا