کچھ بھی نہ اب کہیں گے قفس میں زباں سے ہم
صیاد کو رلائیں گے آہ و فغاں سے ہم
مایوسیوں کے شہر میں لگتا نہیں ہے دل
لے جائیں اپنے دل کو کہاں اس جہاں سے ہم
گلشن جہاں جہاں ہیں وہیں بجلیاں بھی ہیں
جائیں نکل کے دور کہاں آسماں سے ہم
امشب مزاج یار میں کچھ برہمی سی ہے
گزرے ہیں بار بار اسی امتحاں سے ہم
دیتے رہے فریب محبت کے راستے
پہنچے ہیں پھر وہیں کہ چلے تھے جہاں سے ہم
وہ لے گئے ہیں چاند ستاروں کی روشنی
کہتے رہے فسانۂ غم آسماں سے ہم
خیرات حسن کاسۂ رضویؔ میں ڈال دے
کچھ لے کے ہی اٹھیں گے ترے آستاں سے ہم
غزل
کچھ بھی نہ اب کہیں گے قفس میں زباں سے ہم
سید اعجاز احمد رضوی