EN हिंदी
کچھ بھی نہ اب کہیں گے قفس میں زباں سے ہم | شیح شیری
kuchh bhi na ab kahenge qafas mein zaban se hum

غزل

کچھ بھی نہ اب کہیں گے قفس میں زباں سے ہم

سید اعجاز احمد رضوی

;

کچھ بھی نہ اب کہیں گے قفس میں زباں سے ہم
صیاد کو رلائیں گے آہ و فغاں سے ہم

مایوسیوں کے شہر میں لگتا نہیں ہے دل
لے جائیں اپنے دل کو کہاں اس جہاں سے ہم

گلشن جہاں جہاں ہیں وہیں بجلیاں بھی ہیں
جائیں نکل کے دور کہاں آسماں سے ہم

امشب مزاج یار میں کچھ برہمی سی ہے
گزرے ہیں بار بار اسی امتحاں سے ہم

دیتے رہے فریب محبت کے راستے
پہنچے ہیں پھر وہیں کہ چلے تھے جہاں سے ہم

وہ لے گئے ہیں چاند ستاروں کی روشنی
کہتے رہے فسانۂ غم آسماں سے ہم

خیرات حسن کاسۂ رضویؔ میں ڈال دے
کچھ لے کے ہی اٹھیں گے ترے آستاں سے ہم