EN हिंदी
کچھ بھی کر لیجیے وہ وضع بدلنے کے نہیں | شیح شیری
kuchh bhi kar lijiye wo waza badalne ke nahin

غزل

کچھ بھی کر لیجیے وہ وضع بدلنے کے نہیں

کاشف رفیق

;

کچھ بھی کر لیجیے وہ وضع بدلنے کے نہیں
یعنی ہم کرب و اذیت سے نکلنے کے نہیں

ہم بھلے کوچۂ ویراں میں اکیلے بھٹکیں
اس زمانے کی روش پر کبھی چلنے کے نہیں

آئنہ ہے ہمیں جب تک تری خنداں صورت
ہم کسی رنج کی تصویر میں ڈھلنے کے نہیں

ہاں کبھی سوز دروں ان کو گھلا دے شاید
ورنہ نالوں سے ہمارے وہ پگھلنے کے نہیں

ہو چکے خاک جو جل کر وہ پتنگے اے شمع
دوسری بار ترے شعلے سے جلنے کے نہیں

صحن دل میں جو لگائے تھے تمنا کے شجر
ایسا لگتا ہے وہ امسال بھی پھلنے کے نہیں

جب تلک منزل الفت پہ نظر ہے کاشفؔ
پاؤں اپنے کسی ٹیلے سے پھسلنے کے نہیں