کچھ بھی کر لیجیے وہ وضع بدلنے کے نہیں
یعنی ہم کرب و اذیت سے نکلنے کے نہیں
ہم بھلے کوچۂ ویراں میں اکیلے بھٹکیں
اس زمانے کی روش پر کبھی چلنے کے نہیں
آئنہ ہے ہمیں جب تک تری خنداں صورت
ہم کسی رنج کی تصویر میں ڈھلنے کے نہیں
ہاں کبھی سوز دروں ان کو گھلا دے شاید
ورنہ نالوں سے ہمارے وہ پگھلنے کے نہیں
ہو چکے خاک جو جل کر وہ پتنگے اے شمع
دوسری بار ترے شعلے سے جلنے کے نہیں
صحن دل میں جو لگائے تھے تمنا کے شجر
ایسا لگتا ہے وہ امسال بھی پھلنے کے نہیں
جب تلک منزل الفت پہ نظر ہے کاشفؔ
پاؤں اپنے کسی ٹیلے سے پھسلنے کے نہیں
غزل
کچھ بھی کر لیجیے وہ وضع بدلنے کے نہیں
کاشف رفیق