کچھ بھی ہو تقدیر کا لکھا بدل
چاہئے تجھ کو کہ اب رستا بدل
بعد میں مجھ کو دکھانا آئنہ
پہلے اپنا جا کے تو چہرہ بدل
آگہی کا جس میں اک روزن نہ ہو
اس مکان ذات کا نقشہ بدل
میری وحشت ہے سوا اس سے کہیں
بارہا اس سے کہا صحرا بدل
نعمتیں دنیا کی سب مل جاتی ہیں
ماں نہیں ملتا مگر تیرا بدل
پھر رہا ہے کیوں تہی کاسہ لئے
بار جو شانوں پہ ہے رکھا بدل
ٹوٹی پھوٹی بان کا کیا آسرا
آسماں سر پر اٹھا کھٹیا بدل
رسم دنیا یوں بدل سکتی نہیں
کب سحرؔ تجھ سے کہا تنہا بدل
غزل
کچھ بھی ہو تقدیر کا لکھا بدل
شائستہ سحر