کچھ بتاتا نہیں کیا سانحہ کر بیٹھا ہے
دل مرا ایک زمانہ ہوا گھر بیٹھا ہے
یہ زمانہ مجھے بچہ سا نظر آنے لگا
جس طرح آ کے مرے زیر نظر بیٹھا ہے
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی کوئی جاتی ہوئی چیز
ترے اٹھتے ہی مرے دل میں جو ڈر بیٹھا ہے
فرق مشکل ہے بہت دشت کے باشندوں میں
آدمی بیٹھا ہے ایسا کہ شجر بیٹھا ہے
پل کی تعمیر کا سامان نہیں عشق کے پاس
روح بیٹھی ہے ادھر جسم ادھر بیٹھا ہے
رات بھر اس نے ہی کہرام مچا رکھا تھا
کیسا معصوم سا اب دیدۂ تر بیٹھا ہے
سارے احباب ترقی کی طرف جاتے ہوئے
فرحتؔ احساس سر راہ گزر بیٹھا ہے
غزل
کچھ بتاتا نہیں کیا سانحہ کر بیٹھا ہے
فرحت احساس