EN हिंदी
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے | شیح شیری
kuchh baat hi thi aisi ki thame jigar gae

غزل

کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

;

کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزم عدو میں مگر گئے

یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دور کچھ اہل سفر گئے

ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ خدا کو خبر ہے کدھر گئے

رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قدر
میں ہوں زمیں پہ داغ مرے تا قمر گئے

رخسار پر ہے رنگ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے

دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے

جانے لگا ہے دل کی طرف ان کا ہاتھ اب
نالے شب فراق کے کچھ کام کر گئے

حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ کہ شب آئے سحر گئے

بس ایک ذات حضرت شیداؔ کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہل ہنر گئے