کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزم عدو میں مگر گئے
یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دور کچھ اہل سفر گئے
ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ خدا کو خبر ہے کدھر گئے
رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قدر
میں ہوں زمیں پہ داغ مرے تا قمر گئے
رخسار پر ہے رنگ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے
دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے
جانے لگا ہے دل کی طرف ان کا ہاتھ اب
نالے شب فراق کے کچھ کام کر گئے
حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ کہ شب آئے سحر گئے
بس ایک ذات حضرت شیداؔ کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہل ہنر گئے
غزل
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
حکیم محمد اجمل خاں شیدا