EN हिंदी
کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب | شیح شیری
kuchh aur to nahin hamein is ka ojab hai ab

غزل

کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب

نظیر اکبرآبادی

;

کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب
یعنی وہ شوخ ہم سے خفا بے سبب ہے اب

آہ و فغان و گریہ و اندوہ و درد و داغ
جو جنس عشق ہے وہ مرے پاس سب ہے اب

دیکھے سے جس کے غنچہ صفت گل ہو رشک ہے
ایسا تو اس جنم میں وہی غنچہ لب ہے اب

صبح فلک بھی جس کی تجلی سے ہو خجل
اس رشک ماہتاب سے اپنی وہ شب ہے اب

آئینہ ایک دم نہیں رکھتا ہے ہاتھ سے
ایسا وہ اپنے رخ کا تماشا طلب ہے اب

اس گل بدن کے وصل سے ہر دم نظیرؔ کو
سب سے زیادہ خلق میں عیش و طرب ہے اب