کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب
یعنی وہ شوخ ہم سے خفا بے سبب ہے اب
آہ و فغان و گریہ و اندوہ و درد و داغ
جو جنس عشق ہے وہ مرے پاس سب ہے اب
دیکھے سے جس کے غنچہ صفت گل ہو رشک ہے
ایسا تو اس جنم میں وہی غنچہ لب ہے اب
صبح فلک بھی جس کی تجلی سے ہو خجل
اس رشک ماہتاب سے اپنی وہ شب ہے اب
آئینہ ایک دم نہیں رکھتا ہے ہاتھ سے
ایسا وہ اپنے رخ کا تماشا طلب ہے اب
اس گل بدن کے وصل سے ہر دم نظیرؔ کو
سب سے زیادہ خلق میں عیش و طرب ہے اب
غزل
کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب
نظیر اکبرآبادی