EN हिंदी
کچھ اور گمرہئ دل کا راز کیا ہوگا | شیح شیری
kuchh aur gumrahi-e-dil ka raaz kya hoga

غزل

کچھ اور گمرہئ دل کا راز کیا ہوگا

صوفی تبسم

;

کچھ اور گمرہئ دل کا راز کیا ہوگا
اک اجنبی تھا کہیں رہ میں کھو گیا ہوگا

وہ جن کی رات تمہارے ہی دم سے روشن تھی
جو تم وہاں سے گئے ہوگے کیا ہوا ہوگا

اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی
کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہوگا

تمہارے دل میں کہاں میری یاد کا پرتو
وہ ایک ہلکا سا بادل تھا چھٹ گیا ہوگا

وفا نہ کی نہ سہی یہ بھی یاد ہے تجھ کو
کوئی جفا کو بھی تیرے ترس رہا ہوگا

غم جدائی میں ایسی کہاں تھی لذت درد
انہیں بھی مجھ سے بچھڑنے کا دکھ ہوا ہوگا