کچھ اور بھی زیادہ سنور کے دکھاؤں گا
اے زندگی ترے لیے مر کے دکھاؤں گا
طغیانیاں تو رخت سفر ہیں مرے لیے
ساحل پہ ایک روز اتر کے دکھاؤں گا
کب تک سمیٹ رکھوں شرار جنوں کو میں
جنگل کی آگ ہوں تو بکھر کے دکھاؤں گا
خواہش سے کب یہ ہاتھ فلک تک پہنچتا ہے
جو کہہ رہا ہوں میں اسے کر کے دکھاؤں گا
سارا سفر فقط نہیں سائے کے واسطے
شاخ و گل و ثمر بھی شجر کے دکھاؤں گا
غزل
کچھ اور بھی زیادہ سنور کے دکھاؤں گا
قاسم یعقوب