EN हिंदी
کچھ اپنے دور کی بھی کہانی لکھا کرو | شیح شیری
kuchh apne daur ki bhi kahani likha karo

غزل

کچھ اپنے دور کی بھی کہانی لکھا کرو

دانش فراہی

;

کچھ اپنے دور کی بھی کہانی لکھا کرو
پتھر کو موم خون کو پانی لکھا کرو

جدت کی رو میں لوگ کہاں سے کہاں گئے
تم سے بنے تو بات پرانی لکھا کرو

وہ عہد ہے کہ شعلہ فشاں بجلیوں کو بھی
غزلوں میں رنگ و نور کی رانی لکھا کرو

لفظوں کو اپنے اصل معانی سے عار ہے
اب دوستوں کو دشمن جانی لکھا کرو

ہے بے حسوں کی بھیڑ نہ ہوگا کوئی اثر
اخبار میں ہزار گرانی لکھا کرو

لکھنے کے واسطے کوئی عنوان چاہئے
فریاد و آہ و اشک فشانی لکھا کرو

شہرت کے خواستگارو مرا مشورہ ہے یہ
غالبؔ کا اپنے آپ کو ثانی لکھا کرو

دانشؔ زہ نصیب ملے زخم لالہ رنگ
ہر زخم دل کو ان کی نشانی لکھا کرو