EN हिंदी
کچھ عجیب عالم ہے ہوش ہے نہ مستی ہے | شیح شیری
kuchh ajib aalam hai hosh hai na masti hai

غزل

کچھ عجیب عالم ہے ہوش ہے نہ مستی ہے

حسن عابد

;

کچھ عجیب عالم ہے ہوش ہے نہ مستی ہے
یہ طویل تنہائی سانپ بن کے ڈستی ہے

نغمۂ تبسم سے لب ہیں اب بھی نامحرم
شاخ آرزو اب بھی پھول کو ترستی ہے

ہم غریب کیا جانیں مول زندگانی کا
ہم کو کیا پتہ یہ شے مہنگی ہے کہ سستی ہے

آؤ ہم بھی دیکھیں گے اس دیار میں چل کر
کیسے لوگ رہتے ہیں کس طرح کی بستی ہے

خوب رو تمنائیں خوش لباس امیدیں
شہر دل کی بستی بھی کیا حسین بستی ہے