EN हिंदी
کچھ ایسی ٹوٹ کے شہر جنوں کی یاد آئی | شیح شیری
kuchh aisi TuT ke shahr-e-junun ki yaad aai

غزل

کچھ ایسی ٹوٹ کے شہر جنوں کی یاد آئی

صدیق شاہد

;

کچھ ایسی ٹوٹ کے شہر جنوں کی یاد آئی
دہائی دینے لگی آج میری تنہائی

گلے ملی ہیں کئی آ کے دل ربا یادیں
کہیں یہ ہو نہ تری شکل یاد فرمائی

کچھ اس قدر تھے سہم ناک حادثات حیات
کہ تاب دید نہ رکھتی تھی میری بینائی

سیہ کیے ہیں ورق میں نے اس توقع پر
کبھی تو ہوگی مرے درد کی پذیرائی

بدن سے روگ نے کر لی مواقفت شاید
وہی ہے زخم مرا اور وہی ہے گہرائی

علاج ڈھونڈھتا پھرتا ہوں دکھ کے نگری میں
مری رسائی سے باہر ہوئی مسیحائی

اس اک نظر نے مجھے ڈھیر کر دیا شاہدؔ
کسی بھی کام نہ آئی مری توانائی