کچھ ایسے حال و ماضی تیرے افسانے بھی ہوتے ہیں
جو ہر ماحول مستقبل کو دہرانے بھی ہوتے ہیں
جو احساس جوانی کی حسیں خلوت میں پلتے ہیں
وہ جلوے منظر جذبات پر لانے بھی ہوتے ہیں
خموشی داستاں ہے عصمت عنوان ہستی کی
خموشی میں نہاں عصمت کے افسانے بھی ہوتے ہیں
حریم دل میں تجھ کو کاوش غم ہم بھی پوچھیں گے
تصور میں ترے اکثر صنم خانے بھی ہوتے ہیں
کبھی طوفاں میں رخ موجیں بدل دیتی ہیں جب اپنا
سفینے ساحلوں پر لا کے ٹکرانے بھی ہوتے ہیں
عقیدت شرط ہے اے زیبؔ جذبات عقیدت کی
حرم کی راہ میں تعمیر بت خانے بھی ہوتے ہیں
غزل
کچھ ایسے حال و ماضی تیرے افسانے بھی ہوتے ہیں
زیب بریلوی