EN हिंदी
کچھ اب کے جنگ پہ اس کی گرفت ایسی تھی | شیح شیری
kuchh ab ke jang pe uski giraft aisi thi

غزل

کچھ اب کے جنگ پہ اس کی گرفت ایسی تھی

مبارک انصاری

;

کچھ اب کے جنگ پہ اس کی گرفت ایسی تھی
دراصل تھا وہی فاتح شکست ایسی تھی

خوش آمدید نئی روشنی کو کیوں کہتی
ہماری قوم قدامت پرست ایسی تھی

حواس و ہوش کوئی بھی نہ رکھ سکا قائم
ہوائے تازہ بھی شعلہ بدست ایسی تھی

نفس نفس کو ہم اپنا گواہ کرنے لگے
ہمارے سمت صدائے الست ایسی تھی

شناخت کر نہ سکا آئنہ نظر بھی اسے
ہر ایک شاخ بدن لخت لخت ایسی تھی

ہزار رنگ کے جلووں سے تھی فضا معمور
گزشتہ رات مبارکؔ نشست ایسی تھی