کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی
کبھی کبھی نکل آیا کرو غبار میں بھی
یہ بات الگ کہ نشاں اپنا موسموں کو نہ دیں
نمو کے سلسلے ہوتے ہیں ریگ زار میں بھی
میں بن کے جہد رواں موج موج پھیلا ہوں
مری فنا نہیں دریا کے اختیار میں بھی
مسافر آپ بنا لیتے ہیں جگہ اپنی
مسافروں کو بٹھا دو کسی دیار میں بھی
کلام کرتے ہیں در بولتی ہیں دیواریں
عجیب صورتیں ہوتی ہیں انتظار میں بھی
برسنے والی گھٹا ٹوٹ ٹوٹ کر برسی
سلگنے والے سلگتے رہے بہار میں بھی
غزل
کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی
محشر بدایونی

