EN हिंदी
کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی | شیح شیری
kuchh aadmi samaj pe bojhal hain aaj bhi

غزل

کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی

دواکر راہی

;

کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی
رسی تو جل گئی ہے مگر بل ہیں آج بھی

انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہیں آج بھی

اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ ہے کہ ذہن مقفل ہیں آج بھی

باتیں تمہاری شیخ و برہمن خطا معاف
پہلے کی طرح غیر مدلل ہیں آج بھی

راہیؔ ہر ایک سمت فساد و عناد کے
چھائے ہوئے فضاؤں میں بادل ہیں آج بھی