کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی
رسی تو جل گئی ہے مگر بل ہیں آج بھی
انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہیں آج بھی
اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ ہے کہ ذہن مقفل ہیں آج بھی
باتیں تمہاری شیخ و برہمن خطا معاف
پہلے کی طرح غیر مدلل ہیں آج بھی
راہیؔ ہر ایک سمت فساد و عناد کے
چھائے ہوئے فضاؤں میں بادل ہیں آج بھی
غزل
کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی
دواکر راہی