کوشش ہے شرط یوں ہی نہ ہتھیار پھینک دے
موقع ملے تو خط پس دیوار پھینک دے
چہرے پہ جو لکھا ہے وہی اس کے دل میں ہے
پڑھ لی ہیں سرخیاں تو یہ اخبار پھینک دے
صیاد ہے تو شہر میں آزاد یوں نہ پھر
شاید کمند کوئی گرفتار پھینک دے
کر دوستی بھی ظلم سے اور دشمنی بھی رکھ
چہرے پہ تھوک پاؤں پہ دستار پھینک دے
سایا بھی کیوں رہے کسی دشمن کی راہ میں
ہاں کاٹ کر زمین پہ اشجار پھینک دے
رسوائے شہر اب تری عزت اسی میں ہے
پگڑی اتار کر سر بازار پھینک دے
گر ہاتھ کانپتے ہیں تو میدان میں نہ آ
ہمت نہیں تو دور سے تلوار پھینک دے
غزل
کوشش ہے شرط یوں ہی نہ ہتھیار پھینک دے
شہزاد احمد