EN हिंदी
کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا | شیح شیری
koshish hai gar uski ki pareshan karega

غزل

کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا

اسلم عمادی

;

کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا
وہ دشمن جاں درد کو آسان کرے گا

ہم اس کو جوابوں سے پشیمان کریں گے
وہ ہم کو سوالوں سے پشیمان کرے گا

پہلو تہی کرتے ہوئے دزدیدہ جو دیکھے
چہرے کے تأثر سے وہ حیران کرے گا

تو چھپ کے ہی آئے کہ برافگندہ نقاب آئے
دل کی یہی عادت ہے کہ نقصان کرے گا

قزاقوں کی بستی میں رہا کرتے ہیں ہم سب
ہر گھر کو کوئی دوسرا ویران کرے گا

ہر ٹیس سے ابھرے گی تری یاد کی خوشبو
ہر زخم مرے شوق پہ احسان کرے گا

اسلمؔ یہ سنا ہے کہ مرا شہر وفا بھی
تخریب کو شرمندۂ ایقان کرے گا