EN हिंदी
کوئی یاد ہی رخت سفر ٹھہرے کوئی راہ گزر انجانی ہو | شیح شیری
koi yaad hi raKHt-e-safar Thahre koi rahguzar anjaani ho

غزل

کوئی یاد ہی رخت سفر ٹھہرے کوئی راہ گزر انجانی ہو

سلیم کوثر

;

کوئی یاد ہی رخت سفر ٹھہرے کوئی راہ گزر انجانی ہو
جب تک مری عمر جوان رہے اور یہ تصویر پرانی ہو

کوئی ناؤ کہیں منجدھار میں ڈوبے چاند سے الجھے اور ادھر
موجوں کی وہی حلقہ بندی دریا کی وہی طغیانی ہو

اسی رات اور دن کے میلے میں ترا ہاتھ چھٹے مرے ہاتھوں سے
ترے ساتھ تری تنہائی ہو مرے ساتھ مری ویرانی ہو

یوں خانۂ دل میں اک خوشبو آباد ہے اور لو دیتی ہے
جو باد شمال کے پہرے میں کوئی تنہا رات کی رانی ہو

کیا ڈھونڈتے ہیں کیا کھو بیٹھے کس عجلت میں ہیں لوگ یہاں
سر راہ کچھ ایسے ملتے ہیں جیسے کوئی رسم نبھانی ہو

ہم کب تک اپنے ہاتھوں سے خود اپنے لیے دیوار چنیں
کبھی تجھ سے حکم عدولی ہو کبھی مجھ سے نافرمانی ہو

کچھ یادیں اور کتابیں ہوں مرا عشق ہو اور یارانے ہوں
اسی آب و ہوا میں رہنا ہو اور ساری عمر بتانی ہو