کوئی وجود ہے دنیا میں کوئی پرچھائیں
سو ہر کوئی نہیں ہوتا کسی کی پرچھائیں
مرے وجود کو مانو تو ساتھ چلتا ہوں
کہ میں تو بن نہ سکوں گا تمہاری پرچھائیں
یہی چراغ ہے سب کچھ کہ دل کہیں جس کو
اگر یہ بجھ گیا تو آدمی بھی پرچھائیں
کئی دنوں سے مرے ساتھ ساتھ چلتی ہے
کوئی اداس سی ٹھنڈی سی کوئی پرچھائیں
میں اپنا آپ سمجھتا رہا جسے تا عمر
وہ میرے جیسا ہیولیٰ تھا میری پرچھائیں
نہ خوش ہو کوئی بھی تیزی سے بڑھتی قامت پر
پس غروب نہ ہوگی بچاری پرچھائیں
گمان ہست ہے ہستی کا آئینہ خانہ
سو اپنے آپ کو بھی جان اپنی پرچھائیں
میں نصف سچ کی طرح ہوں بھی اور نہیں بھی ہوں
کہ آدھا جسم ہے میرا تو آدھی پرچھائیں
پھر اس سے اس کے تغافل کا کیا گلہ کرنا
کہ افتخارؔ مغل وہ تو تھی ہی پرچھائیں
غزل
کوئی وجود ہے دنیا میں کوئی پرچھائیں
افتخار مغل