EN हिंदी
کوئی تقریب ہو لاچاریاں ہیں | شیح شیری
koi taqrib ho lachaariyan hain

غزل

کوئی تقریب ہو لاچاریاں ہیں

جلیل ساز

;

کوئی تقریب ہو لاچاریاں ہیں
بڑے لوگوں سے رشتے داریاں ہیں

ہماری کج کلاہی پر نہ جاؤ
ابھی ہم میں وہی خودداریاں ہیں

مروت آؤ بھگتی وضع داری
یہ پچھلے عہد کی بیماریاں ہیں

خوشا جن کو میسر آئیں نیندیں
یہاں تو عمر بھر بیداریاں ہیں

نہیں ہے آدمی کے بس میں کچھ بھی
تو پھر کاہے کی خود مختاریاں ہیں

وزیر و میر ہوں یا شیخ و واعظ
سبھی لوگوں میں ظاہر داریاں ہیں

نہیں ہے مونس جاں سازؔ کوئی
دکھاوے کی فقط دل داریاں ہیں