کوئی تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
میں بہت دور ہوں نزدیک بلاتا ہے مجھے
میں نے محسوس کیا شہر کے ہنگامے میں
کوئی صحرا میں ہے، صحرا میں بلاتا ہے مجھے
تو کہاں ہے کہ تری زلف کا سایہ سایہ
ہر گھنی چھاؤں میں لے جا کے بٹھاتا ہے مجھے
اے مرے حال پریشاں کے نگہ دار یہ کیا
کس قدر دور سے آئینہ دکھاتا ہے مجھے
اے مکین دل و جاں میں ترا سناٹا ہوں
میں عمارت ہوں تری کس لیے ڈھاتا ہے مجھے
رحم کر میں تری مژگاں پہ ہوں آنسو کی طرح
کس قیامت کی بلندی سے گراتا ہے مجھے
شاذؔ اب کون سی تحریر کو تقدیر کہوں
کوئی لکھتا ہے مجھے کوئی مٹاتا ہے مجھے

غزل
کوئی تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
شاذ تمکنت