کوئی تارہ نہ دکھا شام کی ویرانی میں
یاد آئے گا بہت بے سر و سامانی میں
دم بخود رہ گیا وہ پرسش حالات کے بعد
آئنہ ہو گئی میں عالم حیرانی میں
دل سلامت رہے طوفاں سے تصادم میں مگر
ہاتھ سے چھوٹ گیا ہاتھ پریشانی میں
سہل کرتی میں تخاطب میں مکرنا تجھ سے
مشکلیں اور تھیں اس راہ کی آسانی میں
اب تری یاد جو آئے بھی تو یوں آتی ہے
جیسے کاغذ کی کوئی ناؤ چلے پانی میں
ایسے عالم میں مری نیند کا آسیب نہ پوچھ
خواب مانگے ہیں تری چشم کی نگرانی میں
کھینچ رکھتی ہے مرے مرے پاؤں کو دہلیز تلک
کوئی زنجیر ہے اس گھر کی نگہبانی میں
غزل
کوئی تارہ نہ دکھا شام کی ویرانی میں
شاہدہ حسن