EN हिंदी
کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی | شیح شیری
koi surat-ashna apna na begana koi

غزل

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی

ناصر کاظمی

;

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی
کچھ کہو یارو یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی

صبح دم دیکھا تو سارا باغ تھا گل کی طرف
شمع کے تابوت پر رویا نہ پروانہ کوئی

خلوتوں میں روئے گی چھپ چھپ کے لیلائے غزل
اس بیاباں میں نہ اب آئے گا دیوانہ کوئی

ہم نشیں خاموش دیواریں بھی سنتی ہیں یہاں
رات ڈھل جائے تو پھر چھیڑیں گے افسانہ کوئی