کوئی ثبوت نہ ہوگا تمہارے ہونے کا
نہ آیا فن جو قلم خون میں ڈبونے کا
ہر ایک بات پہ بس قہقہے برستے ہیں
یہ طرز کتنا نرالا ہے دل کے رونے کا
شروع تم نے کیا تھا تمہیں بھگتنا ہے
جو سلسلہ تھا غلط فہمیوں کو بونے کا
شناخت ہو تو گئی اپنے اور پرائے کی
نہیں ہے غم مجھے عمر عزیز کھونے کا
رئیسؔ فکر سخن رات بھر جگاتی ہے
کوئی بھی وقت مقرر نہیں ہے سونے کا

غزل
کوئی ثبوت نہ ہوگا تمہارے ہونے کا
رئیس الدین رئیس