EN हिंदी
کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا | شیح شیری
koi subut-e-jurm jagah par nahin mila

غزل

کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا

عباس دانا

;

کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا
ٹوٹے پڑے تھے آئنے پتھر نہیں ملا

پتھر کے جیسی بے حسی اس کا نصیب ہے
وہ قوم جس کو کوئی پیمبر نہیں ملا

جب تک وہ جھوٹ کہتا رہا سر پہ تاج تھا
سچ کہہ دیا تو تاج ہی کیا سر نہیں ملا

ہم رات بھر جلیں بھی تمہیں روشنی بھی دیں
ہم کو چراغ جیسا مقدر نہیں ملا

شہر ستم بھی جشن اماں مت منا ابھی
شاید ستم گروں کو ترا گھر نہیں ملا

ماں باپ کی دعاؤں سے بڑھ کر جہیز میں
دلہن کو اور کوئی بھی زیور نہیں ملا

داناؔ وہ اب بھی آتا ہے تنہائیوں میں یاد
دنیا کی بھیڑ میں جو بچھڑ کر نہیں ملا