کوئی شیشہ نہ در سلامت ہے
گھر مرا دشت کی امانت ہے
سارے جذبوں کے باندھ ٹوٹ گئے
اس نے بس یہ کہا اجازت ہے
جان کر فاصلے سے ملنا بھی
آشنائی کی اک علامت ہے
اس سے ہر رسم و راہ توڑ تو دی
دل کو لیکن بہت ندامت ہے
روبرو اس کے ایک شب جو ہوئے
ہم نے جانا کہ کیا عنایت ہے
دو قدم ساتھ چل کے جان لیا
کیا سفر اور کیا مسافت ہے
کل سیاست میں بھی محبت تھی
اب محبت میں بھی سیاست ہے
رات پلکوں پہ دل دھڑکتا تھا
تیرا وعدہ بھی کیا قیامت ہے
غزل
کوئی شیشہ نہ در سلامت ہے
خواجہ ساجد