EN हिंदी
کوئی شے ہے جو سنسناتی ہے | شیح شیری
koi shai hai jo sansanati hai

غزل

کوئی شے ہے جو سنسناتی ہے

سنیل آفتاب

;

کوئی شے ہے جو سنسناتی ہے
اک دہشت سی پھیل جاتی ہے

زندگی کٹ رہی ہے سایوں میں
دھوپ آتی ہے لوٹ جاتی ہے

جیسے جنگل پکارتا ہو مجھے
رات بھر اک صدا سی آتی ہے

گونج اٹھتا ہے گہرا سناٹا
جب درختوں کو نیند آتی ہے

کس کی یادوں کے دیپ جل اٹھے
دور تک روشنی نہاتی ہے

اتنی غزلوں میں کوئی اچھی غزل
اک زمانے کے بعد آتی ہے