کوئی شے ہے جو سنسناتی ہے
ایک دہشت سی پھیل جاتی ہے
زندگی کٹ رہی ہے سائے میں
دھوپ آتی ہے لوٹ جاتی ہے
جیسے جنگل پکارتا ہو مجھے
رات بھر اک صدا سی آتی ہے
گونج اٹھتا ہے گہرا سناٹا
نیند جب دھڑکنوں کو آتی ہے
کیسی یادوں کے دیپ جل اٹھے
دور تک روشنی نہاتی ہے
اتنی غزلوں میں کوئی اچھی غزل
اک زمانے کے بعد آتی ہے

غزل
کوئی شے ہے جو سنسناتی ہے
سنیل آفتاب