EN हिंदी
کوئی سوال نہ کوئی جواب دل میں ہے | شیح شیری
koi sawal na koi jawab dil mein hai

غزل

کوئی سوال نہ کوئی جواب دل میں ہے

خورشید رضوی

;

کوئی سوال نہ کوئی جواب دل میں ہے
بس ایک درد و الم کا سحاب دل میں ہے

جراحتیں جو لگیں تن پہ زیب تن کر لیں
جو دل کے زخم تھے ان کا حساب دل میں ہے

اگر لہو ہے تو آنکھوں میں کیوں نہیں آتا
یہ موج خوں ہے کہ موج سراب دل میں ہے

مدام ظاہر و باطن میں یہ خلیج رہی
نگاہ غرق گنہ احتساب دل میں ہے

صحیفۂ الم روزگار ہاتھوں میں
کھلی ہوئی ترے غم کی کتاب دل میں ہے

نظر کے سامنے اٹھیں گے روز حشر مگر
وہ دل میں دفن رہے گا جو خواب دل میں ہے

اگر جگر میں ہو سارے جہاں کا درد تو خیر
یہ کیا کہ سارے جہاں کا عذاب دل میں ہے