EN हिंदी
کوئی صدا نہ دور تلک نقش پا کوئی | شیح شیری
koi sada na dur talak naqsh-e-pa koi

غزل

کوئی صدا نہ دور تلک نقش پا کوئی

انور انجم

;

کوئی صدا نہ دور تلک نقش پا کوئی
وہ موڑ ہے کہ ملتا نہیں راستا کوئی

ہاں دل کی دھڑکنوں سے صدا چھین لو مگر
چپ چاپ ہی جو آ کے یہاں بس گیا کوئی

مانا کہ تیرے در پہ جھکیں آ کے منزلیں
پر ہم سا بھی ملا تجھے سچ سچ بتا، کوئی

دل کی زباں بہت ہے کوئی ہو جو اہل دل
ہونٹوں سے کیا بتائے بھلا مدعا کوئی

آنکھیں جو بند کیں تو وہ ابھرے ہیں آفتاب
باہر کی دھوپ سے نہ رہا واسطہ کوئی

حیران ہو کے دل سے یہ پوچھا نگاہ نے
کیا واقعی ملا نہ تجھے آشنا کوئی

یا آسمان تک نہیں جاتی مری نوا
یا آسماں پہ سنتا نہیں ہے نوا کوئی

جتنے خیال اتنے ہی رنگوں کے دائرے
ملتا نہیں کسی سے کہیں سلسلہ کوئی

اس سادہ دل کو کیا خبر اس اونچ نیچ کی
انجمؔ کے پاس جا کے بنے کیا بڑا کوئی