EN हिंदी
کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا | شیح شیری
koi saya na shajar yaad aaya

غزل

کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا

راشد حامدی

;

کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
تھک گئے پاؤں تو گھر یاد آیا

کھل اٹھے پھول سے صحراؤں میں
پھر وہ فردوس نظر یاد آیا

پھر مرے پاؤں میں زنجیر پڑی
پھر ترا حکم سفر یاد آیا

لوٹ جانے کو بہت دل مچلا
کیا پس گرد سفر یاد آیا

ساری امیدوں نے دم توڑ دیا
نخل بے برگ و ثمر یاد آیا

لاکھ چاہا تھا کہ وہ چشم غزال
پھر نہ یاد آئے مگر یاد آیا

خواب اور عالم بیداری میں
ریت پر ریت کا گھر یاد آیا

مرثیہ دن کا لکھا تھا راشدؔ
شب کو عنوان سحر یاد آیا