کوئی رشتہ نہ ہو پھر بھی رشتے بہت
آپ اپنے نہیں آپ اپنے بہت
راز رکھتے نہ ہم اس تعلق کو گر
لوگ روتے بہت لوگ ہنستے بہت
دل کی تنہائیوں کا مداوا نہیں
گھوم کر ہم نے دیکھے ہیں میلے بہت
اس ہی بنیاد پر کیوں نہ مل جائیں ہم
آپ تنہا بہت ہم اکیلے بہت
جب تھی منزل نظر میں تو رستہ تھا ایک
گم ہوئی ہے جو منزل تو رستے بہت
خواب تعبیر کے موڑ پر کھو گئے
یوں کہ تعبیر داں پڑ کے سوئے بہت
پیڑ کو کاٹنے والے دیکھیں ذرا
پیڑ پر ہیں بنے آشیانے بہت
ڈوبنے والے شاید یہ بتلا سکیں
ڈوبنے کو سہارے کے تنکے بہت
غزل
کوئی رشتہ نہ ہو پھر بھی رشتے بہت
عبد اللہ جاوید