EN हिंदी
کوئی قصور نہیں میری خوش گمانی کا | شیح شیری
koi qusur nahin meri KHush-gumani ka

غزل

کوئی قصور نہیں میری خوش گمانی کا

ذیشان ساحل

;

کوئی قصور نہیں میری خوش گمانی کا
اثر ہے یہ تری آنکھوں کی بے زبانی کا

کسی نے میری محبت کو کر لیا محفوظ
خیال آیا کسی کو تو پاسبانی کا

برائے نام سا پل بھی نہیں بنا مجھ سے
کہ کچھ علاج نہیں تھا تری روانی کا

ہمارے دل کا المناک دور ہے شاید
سمجھ رہے ہیں جسے کھیل سب جوانی کا

وہ داستان مکمل کرے تو اچھا ہے
مجھے ملا ہے ذرا سا سرا کہانی کا