کوئی قصور نہیں میری خوش گمانی کا
اثر ہے یہ تری آنکھوں کی بے زبانی کا
کسی نے میری محبت کو کر لیا محفوظ
خیال آیا کسی کو تو پاسبانی کا
برائے نام سا پل بھی نہیں بنا مجھ سے
کہ کچھ علاج نہیں تھا تری روانی کا
ہمارے دل کا المناک دور ہے شاید
سمجھ رہے ہیں جسے کھیل سب جوانی کا
وہ داستان مکمل کرے تو اچھا ہے
مجھے ملا ہے ذرا سا سرا کہانی کا
غزل
کوئی قصور نہیں میری خوش گمانی کا
ذیشان ساحل