کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے
چھلکتا کیوں نہیں سیلاب میں پانی کناروں سے
مکمل ہو تو سچائی کہاں تقسیم ہوتی ہے
یہ کہنا ہے محبت کے وفا کے حصہ داروں سے
ٹھہر جائے در و دیوار پر جب تیسرا موسم
نہیں کچھ فرق پڑتا پھر خزاؤں سے بہاروں سے
بگولے آگ کے رقصاں رہے تا دیر ساحل پر
سمندر کا سمندر چھپ گیا اڑتے شراروں سے
مری ہر بات پس منظر سے کیوں منسوب ہوتی ہے
مجھے آواز سی آتی ہے کیوں اجڑے دیاروں سے
جہاں تا حد بینائی مسافر ہی مسافر ہوں
نشاں قدموں کے مٹ جاتے ہیں ایسی رہ گزاروں سے
غزل
کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے
یاسمین حمید