کوئی نہیں جو ہلکا کر دے بار سفر مجھ تنہا کا
دوش پہ ہے امروز کا بوجھ اور سر پر قرض ہے فردا کا
آندھی آئے تو اندیشہ طوفاں اٹھے تو تشویش
ایک طرف سے صحرا کا قرب ایک طرف سے دریا کا
کن زخموں کے ٹانکے ٹوٹے کن داغوں کے بند کھلے
خون ہے رنگت شام و سحر کی آگ ہے موسم دنیا کا
کوچے کے خاموش گھروں کی رات سے کتنا غافل ہے
آخر ماہ یہ شور شبانہ یاران بے پروا کا
پیش رؤں کو اس درجے پر اور بھی کچھ انعام ملے
سنگ ملامت کم ہی صلہ ہے میرے دماغ سودا کا
ہم کو ہماری محرومی کی قیمت ملتی رہتی ہے
دل میں ہمارے بڑھ جاتا ہے روز اک زخم تمنا کا
غزل
کوئی نہیں جو ہلکا کر دے بار سفر مجھ تنہا کا
محشر بدایونی

