کوئی نہیں ہمارا پرسان حال اب کے
پہلے سے بھی شکستہ آیا ہے سال اب کے
ہمت تو آ گئی تھی دکھ جھیلنے کی لیکن
آیا ہے غم ہی چل کے اک اور چال اب کے
کی ہے بہت عبادت فرقت میں آنسوؤں نے
یزداں تو کر لے ان کا کچھ تو خیال اب کے
باتوں کی نغمگی سب آہوں میں ڈھل گئی ہے
پھیلا اداسیوں کا کیسا یہ جال اب کے
دو لخت ہو گیا ہے یہ دل زار اپنا
اٹھا جو دوریوں کا پھر سے سوال اب کے
برگ و ثمر سے عاری تنہا شجر ہو جیسے
جیون کی ہے صفیؔ جی ایسی مثال اب کے
غزل
کوئی نہیں ہمارا پرسان حال اب کے
عتیق الرحمٰن صفی