کوئی نہیں ہے آنے والا پھر بھی کوئی آنے کو ہے
آتے جاتے رات اور دن میں کچھ تو جی بہلانے کو ہے
چلو یہاں سے اپنی اپنی شاخوں پہ لوٹ آئے پرندے
بھولی بسری یادوں کو پھر تنہائی دہرانے کو ہے
دو دروازے ایک حویلی آمد رخصت ایک پہیلی
کوئی جا کر آنے کو ہے کوئی آ کر جانے کو ہے
دن بھر کا ہنگامہ سارا شام ڈھلے پھر بستر پیارا
میرا رستہ ہو یا تیرا ہر رستہ گھر جانے کو ہے
آبادی کا شور شرابہ چھوڑ کے ڈھونڈو کوئی خرابہ
تنہائی پھر شمع جلا کر کوئی حرف سنانے کو ہے
غزل
کوئی نہیں ہے آنے والا پھر بھی کوئی آنے کو ہے
ندا فاضلی