کوئی مجھ سے خفا ہے اس لیے خود سے خفا ہوں
ابلتے کھولتے موسم کے نیزے پر رکھا ہوں
مرے اندر مرا کچھ بھی نہیں بس تو ہے باقی
ترے اندر بتا پیارے میں اب کتنا بچا ہوں
مری سانسوں کی خاموشی میں کیسا شور کیوں میں
کئی صدیاں گزر جانے پہ بھی خود سے خفا ہوں
کلہاڑی کا مجھے اب ڈر نہیں عادت ہے اس کی
گئے وہ دن میں کہتا تھا کوئی جنگل گھنا ہوں
ملوں خود سے میں کیوں فرصت نہیں مجھ کو تمہیں سے
میں خود میں ہو کے بھی بس تم میں رہنے کی رضا ہوں
شرافت کو مری، کمزوریاں مانا سبھی نے
میں خواب امن بنتا تھا لہو میں سن گیا ہوں
مجھے مجھ تک پہنچنے میں لگیں گے جنم کتنے
زمیں سے ٹوٹ کر چھٹکا جزیرہ ہو گیا ہوں
یہی قسمت ہے ان کے خواب سے رہنا ندارد
میں جاگا ہوں، میں جن کی نیند میں تکیہ بنا ہوں
بلاتے ہیں مجھے جذبات، احساسات میرے
مجھے تپنا ہے میں نونیتؔ ہونے کی سزا ہوں
غزل
کوئی مجھ سے خفا ہے اس لیے خود سے خفا ہوں
نونیت شرما