کوئی ملتا نہیں خدا کی طرح
پھرتا رہتا ہوں میں دعا کی طرح
غم تعاقب میں ہیں سزا کی طرح
تو چھپا لے مجھے خطا کی طرح
ہے مریضوں میں تذکرہ میرا
آزمائی ہوئی دوا کی طرح
ہو رہیں ہیں شہادتیں مجھ میں
اور میں چپ ہوں کربلا کی طرح
جس کی خاطر چراغ بنتا ہوں
گھورتا ہے وہی ہوا کی طرح
وقت کے گنبدوں میں رہتا ہوں
ایک گونجی ہوئی صدا کی طرح
غزل
کوئی ملتا نہیں خدا کی طرح
فہمی بدایونی