EN हिंदी
کوئی معیار محبت نہ رہا میرے بعد | شیح شیری
koi meayar-e-mohabbat na raha mere baad

غزل

کوئی معیار محبت نہ رہا میرے بعد

باسط بھوپالی

;

کوئی معیار محبت نہ رہا میرے بعد
ہر طرف عام ہیں خاصان وفا میرے بعد

سلسلہ ان کے ستم کا نہ رہا میرے بعد
بدلا بدلا سا ہے دستور جفا میرے بعد

کون پہنے گا گلے میں تری الفت کی کمند
کس کے سر ہوگی تری زلف دوتا میرے بعد

ہوں گی قربان ترے رخ پہ نگاہیں کس کی
چاند ہو جائے گا ہالے سے جدا میرے بعد

سوچتا ہوں کہ بہ ایں عالم بیتابیٔ دل
کون مانگے گا محبت کی دعا میرے بعد

داد چاہیں گے مری طرح مٹا کر کس کو
عشوہ و غمزۂ انداز و ادا میرے بعد

ٹھوکریں کھاتی پھرے گی شب یلدائے فراق
خون روئے گی ہر اک تازہ بلا میرے بعد

سونی سونی سی ہے ہر محفل ایذا طلبی
جیسے دنیا میں کوئی غم نہ رہا میرے بعد

خیرہ ہو جاتی تھی جس سے نگہ صبر و قرار
ان کے لب پر وہ تبسم نہ رہا میرے بعد

کیا خبر تھی کہ میں خود ساتھ نہ دوں گا اپنا
گوشت ہو جائے گا ناخن سے جدا میرے بعد

فطرت حسن کو ہے ایسے ستم کش کی تلاش
جو وفا پر بھی کرے عذر خطا میرے بعد

زرد کر دے گا اسے میری تباہی کا خیال
رنگ لایا بھی اگر رنگ حنا میرے بعد

ان کا دیوانہ تو کہلانا ہے مشکل باسطؔ
کوئی دیوانہ اگر بن بھی گیا میرے بعد